4 minutes read
2017 پاکستان کیلئے بین القوام کرکٹ کی بحالی اور خوشیوں کا سال ثابت ہوا
نجم سیٹھی اور پاکستان کرکٹ کا 2017
2017 پاکستان کیلئے بین القوام کرکٹ کی بحالی اور خوشیوں کا سال ثابت ہوا
تحریر : ادریس ملک
جنوری 2017 کا پہلا سورج جب طلوع ہوا تھا تو کسی کے وہم و گما ن میں بھی نہیں تھا کہ پاکستان کرکٹ پر مارچ 2009 سے چھائی ہوئی بین القوامی بہاروں کے کالہ گھٹا یک دم چھٹ جائے گی ، اور کرکٹ کے شائیقین قذافی سٹیڈئم لاہور کے خوبصورت سٹیدئم میں اپنے پسندیدہ کرکٹرز کو کھیلتے ہوئے دیکھ سکیں گے ، کرکٹ تجزیہ کاروں ، پنڈتوں ، اور چاہنے والون کی سماعتوں سے صرف ایک جملہ بار بار ٹکرا رہا تھا جو یک نقطی دعوی پر مشتمل تھا کہ پاکستان سپر لیگ کا فائنل لاہور میں کھیلا جائے گا ، کچھ اسے بھڑک قرار دیتے تھے اور کچھ اسے بے پر کی اڑانا کہہ رہے تھے ۔ لیکن چند ایک لکھاری ، کھیل کے حواری اور کرکٹ کے پجاری یہ بھی سمجھتے تھے کہ ایسا ممکن ہے ، بات صرف لگن کی ہے اور یہ لگن نجم سیٹھی نے پاکستان سپر لیگ کے پہلے ایڈیشن میں ممکنات کی صورت میں دکھا کر سب پر دھاک بٹھا رکھی تھی انہیں لکھاریوں اور پجاریوں میں ایک راقم کا نام بھی تھے جس سے بعض اوقات قریب ترین دوست اور سنئیر سپورٹس جرنسلٹ بھی اختلاف کرتے نظر آ ئے (نام ان کی محبت کی وجہ سے نہیں لکھا جا رہا ) ، پی ایس ایل کے دوسرے ایڈیشن کو فکنسگ کے ناسور نے بھی داغدار کرنے کی کوشش کی جس کا علاج تاحال جاری ہیں ، لیکن (پی ایس ایل ٹو کا فائنل )نہ صرف یہ بارش کا پہلا اوربھر پورقطرہ قذا فی سٹیڈئم کے میدان پر برسا بلکہ اس نے آنے والے تمام راستے بھی آ سان کر دیئے ،
پاکستان کرکٹ ٹیم جب چیمپئنز ٹرافی کھیلنے کیلئے ویسٹ انڈیز سے ایک روزہ اور ٹی ٹونٹی سیریز جیت کر انگلینڈ پہنچی اور پہلے ہی میچ میں روایتی حریف بھارت کے ہاتھوں شکست ہوئی تو میرے سمیت ہر ایک کا خیال تھا کہ اب پاکستان کرکٹ ٹیم کا چیمپئنز ٹرافی کا سفر تمام ہو چکا اور گروپ سٹیج کے بعد واپسی طے ہے ۔ لیکن جنوبی افریقہ کے خلاف بارش رحمت کی صورت میں برسی جیسے 1992 کے آ سٹریلیا میں کھیلے جانے والے ورلڈ کپ میں انگلینڈ کے خلاف کھیلے جانے والے میچ میں برسی تھی ، اس بارش کا برسنا تھا کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے کارنرڈ ٹائیگرز نے جست لگائی جس کا قسمت نے بھر پور ساتھ دیا، سری لنکا کو شکست دینے کے بعد تاریخ نے انگڑائی لی اور ناقابل شکست اور ٹورنامنٹ کی فیورٹ ترین میزبانی ٹیم انگلینڈ کے خلاف سیمی فائنل میں کامیابی حاصل ہوئی ، یہ کامیابی نہ صرف پاکستان کی 1992 میں مارٹن کرو کی کیویز الیون کے مترادف تھی بلکہ اس نے یہ بھی طے کر دیا کہ اب روایتی حریف کے خلاف عالمی مقابلوں میں شکست کا بت بھی ٹوٹ جائے گا، سپورٹس جرنلسٹس ایسو سی ایشن کے نیشنل کرکٹ سٹیڈئم میں واقع دفتر میں صدر سجال عقیل احمد، پیارے اور شریر دوست ثنا ء اللہ ، یوسف انجم (سہیل عمران صاحب اپنا آخری فیصلہ دے کر دفتر کیلئے نکل چکے تھے ) اور راقم موجود تھے ، عقیل صاحب کی تسبیح کے دانے چل رہے تھے اور انگلینڈ کی وکٹیں گر رہی تھی ، تب ہی راقم نے جملہ پاس کیا کہ اب پاکستان کو چیمپئنز کا چیمپئن بننے سے روکنے کیلئے بھارت میں جنوبی افریقہ کے اے بی ڈویلئیرز بھی شامل کر دیئے جائے تو یہ ممکن نہیں ہو سکے گا ، اور پھر پوری دنیا نے دیکھا کہ پاکستان نے جیت کا ایسا سہرا سجایا کہ تاریخ کے سارے اوراق الٹ پلٹ کر رکھ دیئے ۔
اس جیت کے بعد اگلا مرحلہ اس جیت کو کیش کرنے کا تھا اور اس کیلئے ایک دفعہ پھر نجم سیٹھی کو میدان عمل میں آ نا تھا، انہوں نے نے اس موقع کو غنیمت جانا اور جائلز کلارک کے ساتھ دوستی کو سیڑھی بنا کر ورلڈ الیون کو پاکستان میں آزادی کپ کی سیریز کیلئے مدعو کر لیا، سیریز کیا تھی پوری دنیا کیلئے محبت چاہت اور کھیل سے جڑے احترام کا ایک ایسا پیغام تھا جسے ساری دنیا نے قبول کیا،، اسی موقع کو ایک دفعہ کامیابی کی سیڑھی کا اگلا زینہ بنا نا تھا جس کیلئے دو سے تین راستے تھے ، ایک تو زمبابوے کو دوبارہ سے بلا لیا جائے ، بنگلہ دیش کے ساتھ میچ کھیلنے کی کوشش کی جائے یا پھر سری لنکا کے ساتھ طے شدہ سیریز میں سے احترام اور کرکٹ سے جڑے پیار کا خراج قذافی سٹیڈئم میں وصول کرنے کیلئے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا جائے
نجم سیٹھی نے اس مشکل ترین فیصلے کو اپنے خواب کی تکمیل کیلئے چن لیا اور سری لنکا سے بات چیت کے بعد اکتوبر 2017 میں سیریز کا آخری ٹی ٹونٹی قذافی سٹیدئم میں کھیلا گیا، دنیا کی نظر میں یہ ایک ٹی ٹونٹی میچ تھا لیکن پاکستان کیلئے یہ میچ ایک تاریخ کا آغآز تھا جس میں وہ اندھیروں سے بھر پور پر خطر اور پر پیچ راستے جو دشمن نے دہشت گردوں کےسا تھ مل کر مارچ 2009 میں ہموار کیئے تھے ان کا خاتمہ ہوا ، سری لنکا کے بہادر سپوتوں نے جراءت کی وہ داستان رقم کی کہ پاکستانی قوم اس احسان کو چاہے بھی تو کبھی بھلا نہیں سکے گی ، اس میچ کے کامیاب انعقاد کے بعد اگلا مرحلہ پھرکامیابی کا اگلا زینہ طے کرنا تھا جس کے لئے ویسٹ انڈیز کرکٹ بورڈ کے سر براہ ڈیود کیمرون نے مکمل ٹی ٹونٹی سیریز کیلئے نومبر کیلئے معاہد کیا لیکن موسم کی سختی آ ڑے آ گئی اور یہ سیریز اب پاکستان سپر لیگ کے تیسرے ایڈیشن کے بعد مارچ 2018 میں اسی قذا فی سٹیدئم میں کھیلی جائے گی ، جس کے بعد جنوبی افریقہسے کرکٹ کے دوستانہ تعلقات کے نئے باب کا اضا فہ بھی ہو سکتا ہے