3 minutes read
نفع نہ نقصان ، سری لنکا بنا ہمارا مہمان
تحریر : ادریس ملک
پاکستان کرکٹ کیلئے 29 اکتوبر 2017 کا دن بہت اہم ہے ۔ اس دن ایک تو پاکستان اور سری لنکا کے درمیان قذافی سٹیدئم میں 8 سال 6 مہینوں اور 25 دنون بعد انٹر نیشل کرکٹ میچ کھیلا گیا اور دوسرا ایشین کرکٹ کونسل کی لاہور میں ہونے والی میٹنگ میں اپریل 2018 میں ایشین ایمرجنگ کرکٹ کپ کی میزبانی پاکستان کو سونپنے کا علان کیا گیا، اعلامیہ کے مطابق ایشیین ایمرجنگ کپ میں ٹیسٹ کھیلنے والے ممالک پاکستان ، بھارت ، بنگلہ دیش، سری لنکا اور افغانستان سمیت کل 6 ٹیمیں حصہ لیں گی ۔ گو اس سے پہلے ٹیسٹ کھیلنے والے ملک زمبابوے کی ٹیم بھی پاکستان کا دورہ کر چکی ہیں لیکن سری لنکا کرکٹ ٹیم کا پاکستان کے دل لاہور میں آ کر کھیلنا ایک اہم سنگ میل ہے ۔ سموگ کی گہری لہر کی موجودگی میں کھیلے جانے والا یہ ٹی ٹونٹی دنیائے کرکٹ پر لا محدود اثرات چھوڑ گیا ۔ یہ عالمی سطح کاایک ایسا تاثر ہے جو دنیا کو پاکستان کے کھیلوں کیلئے محفوظ ملک ہونے کی مثال کے طور پر پیش کیا جاسکےگا ۔ اس میچ کے مالی معاملات کے حوالے سے ایک حقیقت پسندانہ بحث ہمارے سپورٹس جرنلزم کے سنئیر دوستوں (سلیم خالق صاحب روزنامہ ایکسپریس اور سہیل عمران صاحب جنگ جیو) کے درمیان سوشل میڈیا پر جاری ہے جس میں یہ تذکرہ کیا جا رہا ہے کہ اگر بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی کیلئے کسی بھی ملک کو پیسے دیکر اپنے ملک میں کھیلنے کیلئے بلانے کی یہ روایت درست نہیں ۔ یہ بات سو فیصد ٹھیک بھی ہے سنئیر ز کے مطابق اس طرح سے مستقبل میں پاکستان کرکٹ بورڈ کو مالی طور سے بہت نقصان ہو گا اور اگر معاملات ایسے ہی چلتے رہے تو دیوالیہ بھی نکل سکتا ہے ، کیونکہ زمبابوے کے بعد سری لنکا اور اب ویسٹ انڈیز کی جانب سے دورہ پاکستان سے حاصل ہونے والے منافع میں سے حصہ مانگنا یا ادا کرنا دو طرفہ کرکٹ کے مالی فوائد کے با الکل بر عکس ہے ، لیکن دوسری طرف اس بارے پی سی بی کے اعلی افسران و حکمران کا مئوقف ہے کہ ہمیں مالی طور سے کوئی نقصان ہو رہا ہےاور نہ ہی ہو گا، اس وضاحت کو درست تسلیم کر لیا جائے یانہ کیا جائے یہ ایک الگ بحث ہے لیکن سری لنکا کے دورہ پاکستان کا مثبت ترین پہلو یہ ہے کہ اس دورہ سے جہاں ایک طرف انٹر نیشل کرکٹ کی کتاب کاوہ باب جو سری لنکا پر مارچ 2009 میں ہونے والے حملے کے وقت سے سے بند پڑاتھا وہ اسی صفحہ سے کھل چکا ہے جہاں اس کو لکھنے والے تاریخ دان نے چھوڑا تھا ،اسی لبرٹی چوک پر کرکٹ کے شائیقین نئی چہل پہل کا حصہ بنے جسے غیر ملکی میڈیا نے اپنے کیمروں میں محفوظ بھی کیا ۔ کرکٹ کی عالمی باڈی آ ئی سی سی نے بھی اس میچ کو اوراسکے انتظامات کو سراہا ، برطانیہ کے ہائی کمشنر تھامس ڈڑیو نے انتظامات کی تعریف کرتے ہوئے خواہش کا اظہار کیا کہ امید ہے جلد انگلینڈ کرکٹ ٹیم بھی پاکستان کا دورہ کریگی ، جرمنی کےسفیر کی طرف سے بھی دل کھول کر تعریف کی گئی ۔ کرکٹ پر لکھنے والے دنیا بھر کے صحافیوں اور میڈیا کی عالمی طاقتوں نے اس میچ کو ہر زاویہ سے پرکھا ، آ ئی سی سی کے نمائندے میچ دیکھنے کیلئے موجود تھے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ دنیا پاکستان کے اس مثبت چہرے کو پسند کرتی ہے اور امید کرتی ہے کہ خطے میں پاکستان کھیلوں کی سپر پاور کےطور پر سامنے آ ئے یہی اس کا نو پرافٹ نو لاس کا بہترین مصداق ہے ، پی سی بی کو منافع ہوا یا نقصان یہ مالی معاملہ ہے لیکن اخلاقی سطح پر پاکستان کو بہت بڑی کامیابی ملی ہےجس کا کوئی نعم البدل نہیں اور اگر آئندہ ایک سال تک بھی نو پرافٹ نو لاس کے ساتھ (جیسے پی سی بی افسران کا مئوقف ہیں) یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے تو اس سے بہتر کوئی کامیابی نہیں اور ایک دن بھارت ، سری لنکا اور آ سٹریلیا سمیت سب ممالک کو یہاں آ کر کھیلنا ہو گا ۔ امید ہے کہ سری لنکا کےساتھ ہونے والی سیریز کے بعد اب ماہ نومبر میں ویسٹ انڈیز کے ساتھ متوقع تین ٹی تونٹی میچز کی سیریز جس کا اعلان چیئرمین نجم سیٹھی کےمطابق دو سے تین دن میں کر دیا جائے گا، کامیابی کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچے گی